site under construction

.
News Update :
Hot News »
Bagikan kepada teman!

کراچی میں پولیس موبائل کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار نوجوان جاں بحق۔


   بدھ 16 جنوری 2019



جاں بحق اورزخمی ہونے والے افراد سی ویو پر ریسٹورینٹ پر کام کرتے تھے ویڈیو:


Abrar ko Insaf Na Mila Tu Kashmiryon Ki Awaz,


Press Release Justice For Abrar

کراچی: درخشاں میں تیزرفتار پولیس موبائل کی ٹکر سے موٹر سائیکل پرسوار ایک نوجوان جاں بحق جب کہ 2 افراد زخمی ہوگئے۔
کراچی کے علاقے خیابان شجاعت اورخیابان مجاہد کے ٹریفک سگنل پر تیز رفتار پولیس موبائل نمبر ایس پی ایم 777 نے موٹرسائیکل کو ٹکر مار کر فرار ہو گئی جس کے باعث موٹر سائیکل پر سوار ایک جوان موقع پر جاں بحق جب کہ 2 نوجوان زخمی ہو گئے جنہیں فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں جاں بحق ہونے والے 23 سالہ نوجوان کی شناخت محمد ابرار ولد محمد صدیقی جبکہ زخمیوں میں 18 سالہ محمد سعود ولد محمد طارق اور18 سالہ محمد کامران ولد امیر حمزہ کے نام سے کرلی گئی ہے۔
ٹریفک حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد فائن ہاؤس عمر کالونی بلوچ پل کے رہائشی تھے، ٹریفک حادثے میں جاں بحق اورزخمی ہونے والے افراد سی ویو پر واقع نجی ریسٹورینٹ پر کام کرتے تھے اور کام ختم کرنے کے بعد واپس گھر جا رہے تھے کہ تیز رفتار پولیس موبائل نے انہیں ٹکر مار دی۔

اس حوالے سے ایس ایس پی کراچی جنوبی پیر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ جس پولیس موبائل نے موٹر سائیکل سواروں کو ٹکر ماری وہ پولیس موبائل  سیکیورٹی پول کی ہے اور سیکیورٹی پول کی جانب سے ہر پولیس افسر کو اسکواڈ کے لیے پولیس موبائل فراہم کی جاتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ یہ موبائل سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر کے اسکواڈ میں تھی لیکن ان کی اب تک اس حوالے سے سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی سے بات نہیں ہوئی ہے۔ حادثے کا مقدمہ درخشاں تھانے میں پولیس موبائل میں سوار اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہےاورامید ہے کہ آج پولیس موبائل میں سوار پولیس اہلکاروں کو گرفتار بھی کر لیا جائے گا۔
ہم  چیف جسٹس آف پاکستان  چیف آف آرمی سٹاف  وزیراعظم پاکستان عمران خان  وزیر داخلہ سے  سے مطالبہ کرتے ہیں  کے ملزمان کو کفر کردار تک پہنچایا جائے
comments | | Read More...

سعودی عرب میں تاریخ کی سب سے انوکھی طلاق!بیوی نےخاوند سے اس وجہ سے طلاق لے لی کہ ۔۔جان کر آپ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائینگےط

اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب میں تاریخی کی انوکھی طلاق، بیوی نے اپنے خاوند سے طلاق ایسی وجہ سے لے لی کہ جان کر آپ بھی اس خاتون کو سراہے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ سعودی عرب میں ایک خاتون اپنے 29سالہ سعودی خاوند سے طلاق کیلئے عدالت جا پہنچی اور اس نے جج کے سامنے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا۔ سعودی شخص اپنی بیوی کےاس مطالبے پرشدید حیران تھا کہ اس کی بیوی اس سے طلاق کیلئے اتنی بضد کیوں ہے؟بیوی نے عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ اس کے خاوند نے کبھی اس کی کوئی فرمائش رد نہیں کی مگر وہ اس سے اس لئے طلاق لینا چاہتی ہے کیونکہ وہ مجھے اپنی ماں پر ترجیح دیتا ہے۔ خاتو ن نے عدالت کے سامنے یہ بھی اعتراف کیا کہ خاوند نے اس پر بے شمار پیسے خرچ کئے ہیں، اسے بیرون ملک سفر بھی
 کروائے اور اس کی خواہش کی ہر چیز بھی خرید کر دی، مگر وہ پھر بھی اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی کیونکہ جس شخص کا سلوک اپنی ماں کے ساتھ اچھا نہیں اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جو اپنی پیدا کرنیوالی ماں کو چھوڑ سکتا ہے وہ کل اس سے بھی منہ موڑ سکتا ہے۔ عورت کے شوہر نے عدالت سے التجا کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوڑنا چاہتا اور اسے خوش رکھنے کیلئے سب کچھ کرے گا۔ اس نے اپنی بیوی سےعدالت کے روبرو سوال کیا کہ کیااس نے اپنے گھروالوں کو اس کی خاطر نہیں چھوڑا؟ مگر بیوی نے اس کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ خاتون کا جواب میں کہنا تھا کہ ہاں میں اسی وجہ سے تم سے طلاق لینا چاہتی ہوں کہ تم نے اپنی ماں کو میرے لئے چھوڑ دیا ،کل تمہیں مجھے بھی چھوڑ سکتے ہو۔مگراب میں نے علیحدگی کا پکا ارادہ کر لیا ہے ۔ کیونکہ تم نے مجھے اپنے پورے خاندان پر ترجیح دی حتیٰ کہ اپنی ماں پر بھی ۔ خاتون نے اس بات پر اصرار جاری رکھا کہوہ اُس دِن کا انتظار نہیں کرے گی جب اس کا خاونداسے اسی طرح چھوڑ دے جس طرح اس نے اپنی ماں کو چھوڑا تھا۔ خاتون نے اپنے خاوند کی جانب سے دِیا گیا جہیز کا سامان واپس لوٹا دیاجس کے بعد جج نے طلاق واقع ہونے کا اعلان کر دِیا۔ اس موقع پر جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون کی جانب سے اپنے خاوند سے صرف اس لئے طلاق حاصل کرنا کہ وہ اپنی ماں کو بیوی سے کم درجہ دیتا ہےایک عمدہ سوچ ہے۔ جج کا مزید کہنا تھا کہ کچھ مردوں کا ماننا ہے کہ اپنی بیویوں کی اندھادُھند اطاعت اور اُن کے لیے سب کچھ کر گزرنے سے اُنہیں بیویوں کا دائمی پیار نصیب ہو سکتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مرد کو اپنے گھر والوں کو' خصوصاً اپنی ماں کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔


https://dailyausaf.com/story/98481
comments | | Read More...

لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے سولر یو پی ایس بہترین ہے سسٹم کی قیمت کیا ہے؟

جیسے جیسے پارہ یا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، ویسے ہی بجلی کی فراہمی نے مایوس کرنا شروع کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ مسلسل دیگر عملی اور سستے آپشنز کو تلاش کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک جنریٹرز اور یو پی ایس سسٹمز لوگوں کے لیے کچھ تسکین کا باعث بنتے تھے مگر بغیر کسی اعلان کے گھنٹوں تک بجلی غائب رہنے اور ایندھن کی قیمت میں بے پناہ اضافے کے باعث یہ کافی مہنگا آپشن بن چکا ہے۔ جہاں تک یو پی ایس سسٹمز کی بات ہے تو یہ اس وقت تک ہی بجلی فراہم کرتے ہیں جب تک بیٹری کام کرتی ہے، اس کے بعد انہیں ری چارج کرنا پڑتا ہے۔ خوش قسمتی سے اب ایسے متبادل یا ماحول دوست توانائی کے ذرائع موجود ہیں، جن کے بارے میں غور کیا جاسکتا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ افراد انہیں اپنا رہے ہیں۔
اگرچہ سولر ہو یا ونڈ، ان کے سسٹم کی تنصیب شروع میں مہنگی نظر آتی ہے، مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ اس سرمایہ کاری سے یوٹیلیٹی بل کو کم از کم رکھا جاسکتا ہے کیونکہ سورج یا ہوا مفت بجلی فراہم کرتے ہیں۔ ان دونوں میں ونڈ پاور میں کچھ مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے معاملے پر ہوا پر انحصار کرنا پڑتا ہے، مگر سورج یہاں موجود ہے اور ہر روز ہی آسمان پر جگمگا رہا ہوتا ہے اور یہ زیادہ قابل اعتماد ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس شعبے میں بہتری اور جدت کا باعث بھی بن رہی ہے اور اس حوالے سے نئی پیشرفت یو پی ایس ٹیکنالوجی میں ہوئی ہے اور سولر یو پی ایس کے حوالے سے صارفین میں دلچسپی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے جو اسے عملی آپشن قرار دے رہے ہیں۔
تو یہ سولر یو پی ایس کیا ہے؟ اس کا جواب کراچی کے ریگل چوک میں سولر یو پی ایس فروخت کرنے والے متعدد دکانداروں میں سے ایک محمد شاکر نے کچھ اس طرح دیا' یہ بنیادی طور پر ایک انورٹر ہے، جس میں اب سولر چارج کنٹرول موجود ہے، اسے سولر ہائیبرڈ کنورٹر بھی کہا جاتا ہے'۔ انہوں نے مزید بتایا ' یہ سب اس میں نصب ہوتا ہے تو اب یو پی ایس بیٹری کو چارج کرنے کے لیے بجلی کا انتظار کرنے کی بجائے آپ اسے چبوترے میں لگے سولر پینل سے کنکٹ کرسکتے ہیں جس کی بدولت بیٹری چارج رہتی ہے'۔
ابرار ایک اور یو پی ایس سسٹمز ڈیلر ہیں، ان کا بھی کہنا تھا کہ یہ چین سے آنے والے تازہ ترین سولر پاور سسٹمز ہیں ' اب مارکیٹوں میں متعدد سولر یوپی ایس برانڈز دستیاب ہیں، ان میں کچھ معروف غیرملکی برانڈز ہیں جو کہ اپنی مصنوعات چین میں اسمبل کرتے ہیں، کچھ ان کی نقل کرتے ہیں اور کچن اوریجنل چیی برانڈز ہیں'۔ انہوں نے بتایا ' سولر یو پی ایس کی قیمت کا انحصار صارف کے لوڈ کی ضرورت پر ہے، یہ آپ کو 14 ہزار 500 روپے تک بھی مل سکتا ہے، اور اسے ایک سولر پینل سے کنکٹ کرنا بھی بیٹری کو اتنا چارج رکھتا ہے کہ پنکھے اور لائٹس کام کرتے رہیں'۔'
comments | | Read More...

مسوڑھوں سے خون نکلنا کس خطرناک بیماری کا اشارہ ہے جانئے اس رپورٹ میں

ہم میں سے اکثر کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب ہم کسی سخٹ چیز کو کھاتے ہیں یا پھر کلی کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی خون بھی آجاتا ہے اس کا تعلق اکثر ہمارے دانتوں اور خراب مسوڑھوں کے ساتھ ہوتا ہے جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہو ۔
مسوڑھوں سے خون آنا ایک عام پایا جانے والا مسئلہ ہے لیکن کیا یہ صرف دانتوں سے متعلقہ مسئلہ ہے یا اس کا کچھ اور مطلب بھی ہے؟ آسٹریلوی ڈینٹسٹ ڈاکٹر سٹیون نے دانتوں کے مسائل کے موضوع پر ایک کتاب The Dental Diet تحریرکی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ مسوڑھوں سے خون آنا دراصل ایک اور سنگین بیماری کی علامت ہے۔ دراصل یہ ہاضمے کے مسائل، قوت مدافعت کی کمی، ذہنی تناﺅ اور ڈپریشن جیسی کئی بیماریوں کی علامت ہو سکتی ہے لیکن سب سے زیادہ امکان ذیابیطس کی بیماری کا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سٹون جو کہ دانتوں کے امراض کے ماہر ہے ان کی تحقیق کے مطابق مسوڑھوں سے خون آنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے اس کی وجہ دانتوں پر سخت برش کرنا ہو سکتا ہے اسیے ہی اگر کوئی دانتوں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا تو اس بھی بیکٹیریا کی وجہ سے اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی کبھار اس کی وجہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے اس لئے دانتوں کی صحت کےمتعلق کوئی رائے کام کرنے سے بہتر یہ ہے کہ آُ کسی ماہر ڈاکٹر سے دانتوں کا معائنہ کرائے تا کہ کسی بھی مستقبل میں پریشانی سے بچنا ممکن ہو سکے ۔ کیونکہ دانت ہے تو کھانا ہے اور یہی اچھی صحت کا ضامن بھی ہے...

comments | | Read More...

شادی کے ساڑھے آٹھ سال میں خاوند کے ساتھ کتنا وقت گزارا ؟ کشمیری حریت پسند یاسین ملک کی اہلیہ نے ایسی بات بتا دی کہ جان کر آپ بھی آبدیدہ ہو جائیں گے

کشمیر کی آزادی کے پاسبان یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ شادی کے ساڑھے 8 برس کے دوران صرف 60 دن خاوند کے ساتھ گزارے، بقیہ وقت انہیں جیل جا کر ملی مجھے ان کی بیوی ہونے پر فخر ہے۔تفصیلات کے مطابق لاہور ماڈل ٹاؤن میں پی ٹی آئی کے دفتر میں کشمیر یک جہتی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 فروری وہ دن ہے جس دن کشمیری تہہ دل سے پاکستانیوں کے شکر گزار ہوتے ہیں،

پاکستانی بھائیوں نے کشمیر کے لوگوں کا حوصلہ بڑھایا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانی عوام ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب حال یہ ہے کہ کوئی کشمیری اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور حالت پر ترس کھانا پسند نہیں کرتا بلکہ خود اپنا حوصلہ بڑھاتا ہے۔مشعال ملک نے کہا کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کی ہوئی ہے، خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے ان پر تشدد کیا جاتا ہے، کشمیری بچیوں کے اسکولوں میں گرنیڈ پھینکے جاتے ہیں جس سے وہ زخمی اور اندھی ہو جاتیں ہیں۔یاسین ملک کی اہلیہ نے مزید کہا کہ میرے شوہر یاسین ملک کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ساڑھے آٹھ سال کی شادی میں 60 دن اپنے خاوند کے ساتھ گزارے، باقی وقت انہیں جیل جا کر ملی مجھے ان کی بیوی ہونے پر فخر ہے۔

واضح رہے کہ لاہور ماڈل ٹاؤن میں پی ٹی آئی کے دفتر میں کشمیر یک جہتی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 فروری وہ دن ہے جس دن کشمیری تہہ دل سے پاکستانیوں کے شکر گزار ہوتے ہیں، پاکستانی بھائیوں نے کشمیر کے لوگوں کا حوصلہ بڑھایا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانی عوام ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب حال یہ ہے کہ کوئی کشمیری اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور حالت پر ترس کھانا پسند نہیں کرتا بلکہ خود اپنا حوصلہ بڑھاتا ہے...

comments | | Read More...

(عشق سے انکائونٹر تک ) جب سندھ کی انتہائی معروف سیاسی شخصیت کی بیٹی گھنے سیاہ بالوں والے نقیب اللہ پر مرمٹی تب باپ نے رائو انوار سے کیا کہا ؟ نقیب اللہ کے انکائونٹر کی وہ اصل لرزہ خیز داستان جس سے عوام اب تک بے خبر تھی

نقیب اللہ محسود کے قتل کے پیچھے وجہ سیاسی شخصیت کی بیٹی سے تعلقات یا کچھ اور،کالم نگار جمیل فاروقی نے اپنے کالم میں اہم سوالات اٹھا دئیے۔تفصیلات کے مطابق معروف اینکر پرسن و کالم نگار جمیل قاروقی نے اپنے ایک کالم عشق سے انکائٹر تک میں لکھا ہے کہ نوجوان جس کہ لمبے اور گھنے سیاہ بال تھے۔اور شکل سے ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی ماڈل جیسا تھا۔اس بات کا منتظر تھا کہ اس کے سپنوں کی رانی کی کال کب آئے گی۔

یہ جانتے اور مانتے ہوئے بھی کہ لڑکا پہلے شادی شدہ ہے،لڑکی ماڈل نما خوبصورت نوجوان پر مر مٹی تھی۔فرق تو بہت تھا لیکن دونوں کی سوچ اور سمجھ کی قدریں کافی مشترک تھیں۔دونوں ماڈلنگ میں خوب دلچسپی رکھتے تھے۔اور ایک دوسرے میں بھی۔لڑکے کا نام نقیب اللہ محسود تھا۔یہ وہی نقیب اللہ محسود تھا جو کچھ دنوں تک راؤ انوار کے جعلی پولیس مقابلے کی بھینٹ چڑھنے والا تھا۔نقیب جس بے قراری میں سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا،اس ے لگ رہا تھا کہ اس کے ارادوں میں کچھ جھول ہے۔اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔اور دوسری طرف اس کے سپنوں کی رانی موجود تھی۔لڑکی نے کہا کہ میں تو نکا ح کے لئے تیار ہوں۔تم اپنا بتاؤ۔نقیب نے کہا میں بھی تیار ہوں لیکن تھوڑا ڈر لگ رہا ہے۔ایک ڈر اپنی اہلیہ اور بچوں کا ہے جب کہ دوسرا ڈر تمھارے گھر والوں کا ہے۔

لڑکی نے کہا کچھ نہیں ہوتا میں تمھارے ساتھ ہوں۔نقیب نے کہا کہ ہم جنوری کے پہلے ہفتے کی بجائے معاملات کو دوسرے ہفتے تک مؤخر کر دیتے ہیں۔لڑکی پہلے تو نالاں دکھائی دی لیکن بعد میں مان گئی۔لڑکی کی ہر کال ٹریس ہو رہی تھی۔اور لڑکی کے مبینہ امیر باپ اور سندھ کی مبینہ معروف سیاسی جماعت کے سیاسی عہدے دار کے لئے بد نما داغ سے کم نہیں تھا۔جس سے بچنے کے لئے لڑکی کے والد نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سے رابطہ کیا اور نقیب اللہ کی درگت بنانے کا کہا۔ایس ایچ او نے تمام مدعا راؤ انوار کے سامنے رکھا اور سائیں کے حکم سے آگاہ کیا۔دو جنوری کو نقیب کی اس لڑکی سے دوبارہ بات ہوئی اور یہ کال بھی ٹریس ہو رہی تھی۔اور پھر راؤ انوار اور ان کی ٹیم متحرک ہو گئی۔

تین جنوری کو نقیب کو سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ افراد نے ہوٹل کے باہر سے اٹھایا۔اور نا معلوم مقام پر لے گئے،معلومات لی گئیں اور حقائق اکھٹے کئے گے۔لڑکی کے والد نے نقیب اللہ کو راستے سے ہٹانے کا ٹاسک دیا۔
تو جعلی مقابلوں کے ماسٹر مائنڈ راؤ انوار نے قہقا لگایا اور ہنسے کہ سائیں کہیں تو اسے دہشت گرد بنا دیتے ہیں۔دوسری طرف بھی وہی ہوا اور کچھ دن بعد وہی ہوا۔جمیل فاروقی کا اپنے کالم میں مزید کہنا ہے کہ یہ کہانی کتنی درست ہے اس کا فیصلہ تو وقت اور تحقیقات کریں گی۔لیکن سچ ہی کہ نقیب کا قتل محض اتفاقیہ یا غلطی کا شاخسانہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے...
comments | | Read More...

ایک عورت پیر صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ پیر صاحب مجھے کوئی ایسا تعویذ دیں کہ میرا شوہر میری ہر بات مانے جو بھی میں کہوں وہ میرے تابع ہو جائے۔پیر صاحب بھی دور اندیش انسان تھے انھوں نے اس عورت کی بات غور سے سنی، اور کہا کہ یہ عمل تو شیر کی گردن کے بال

ایک عورت پیر صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ پیر صاحب مجھے کوئی ایسا تعویذ دیں کہ میرا شوہر میری ہر بات مانے جو بھی میں کہوں وہ میرے تابع ہو جائے۔پیر صاحب بھی دور اندیش انسان تھے انھوں نے اس عورت کی بات غور سے سنی، اور کہا کہ یہ عمل تو شیر کی گردن کے بال پرہوگا۔ اور وہ بال بھی آپ خود شیر کی گردن سے اکھاڑ کر لائیں گی۔ تب اثر ہوگا ورنہ کوئی فائدہ نہ ہوگا۔وہ عورت بہت پریشان ہوگئی۔

اور مایوس ہو کر واپس آگئی اور اپنی سہیلیوں کو بتایا۔ایک سہیلی نے مشورہ دیا کہ کام تو مشکل ہے مگر ناممکن نہیں، تم ایسا کرو کہ روزانہ پانچ کلو گوشت لیکر جنگل جایا کرو اور جہاں شیر آتا ہے وہاں ڈال کر چھپ جاؤ۔کچھ عرصہ بعد شیر کے سامنے جا کر ڈالو وہ گوشت کا عادی ہو جائیگا۔تم اس کے قریب جاکر گوشت ڈالنا شروع کر دینا اور اس کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کر دینا اور جب شیر تم سے مانوس ہو جائے تو گردن سے بال اکھیڑ لینا۔اس عورت کو بات پسند آئی، دوسرے دن ہی اس نے گوشت لیا اور جنگل گئی اور گوشت ڈال کے چھپ گئی، شیر آیا گوشت کھایا اور چلا گیا۔اس عورت نے ایک ماہ تک ایسا کیا، ایک ماہ بعد اس نے شیر کے سامنے جا کر گوشت ڈالنا شروع کر دیا۔

تاکہ شیر کو پتہ چل سکے کہ اس کی خدمت کون کرتا ہے۔کچھ عرصہ بعد شیر بھی عورت سے مانوس ہو گیا تھا، عورت نے شیر کی گردن پر آہستہ آہستہ پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا.ایک دن عورت نے موقع دیکھ شیر کی گردن سے بال اکھیڑا اور خوشی خوشی پیر صاحب کے پاس پہنچ گئی اور بال پیر صاحب کو دیا اور کہا کہ میں شیر کی گردن سے بال اکھیڑ کر لے آئی ہوں اب آپ عمل شروع کریں۔پیر صاحب نے پوچھا: کیسے لائی ہو؟تو عورت نے پوری تفصیل بتا دی۔پیر صاحب مسکرایا اور کہا کہ کیا تمہارا شوہر اس جنگلی درندے سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟جوکہ خونخوار ہوتاہے، جس کی تم نے چند دن خدمت کی اور وہ تم سے اتنا مانوس ہو گیا۔

کہ تم نے اس کی گردن سے بال اکھیڑ لیا اور اس نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا تمہارے شوہر کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے تم اس کی خدمت کرو جب جنگلی درندہ خدمت سے اتنا مانوس ہو سکتا ہے تو ایک باشعور انسان بھی آپ کے تابع ہو سکتا ہے۔.

comments | | Read More...

جتنا جسم ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے! مگر جو حصہ کھلا ہے اس کو دیکھنے کا ہم سب کا حق ھے۔

تیری بیوی کےجسم جتنا حصہ ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے مگر جو حصہ کھلا ہے وہ تو شاملات ھے اس کو دیکھنے کا ہم سب کا حق ھے۔کہتے ہیں قاہرہ سے اسوان جانے والی گاڑی میں سوار اس عمر رسیدہ شخص کی عمر کم از کم ساٹھ تو ہوگی اور اوپر سے اس کی وضع قطع اور لباس، ہر زاویے سے دیہاتی مگر جہاندیدہ اور سمجھدار بندہ لگتا تھا۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک نوجوان جوڑا سوار ہوا جو اس بوڑھے کے سامنے والی نشست پر آن بیٹھا۔ صاف لگتا تھا کہ نوبیاہتا ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ لڑکی نے انتہائی نامناسب لباس برمودہ پینٹس کے ساتھ ایک بغیر بازؤں کی کھلے گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی جس سے اس کے شانے ہی نہیں اور بھی بہت سارا جسم دعوت نظارہ بنا ہوا تھا۔مصر میں ایسا لباس پہننا کوئی اچھوتا کام نہیں، اور نا ہی کوئی ایسا لباس پہنے کسی لڑکی کو شوہدے پن سے دیکھتا یا تاڑتا ہے۔ مگر دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ لڑکی کے خاوند کی حیرت دید کے قابل تھی کہ اس بوڑھے نے لڑکی کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔چہرے سے اتنا پروقار اور محترم نظر آنے والے شخص کی حرکتیں اتنی اوچھی، بوڑھے کی نظریں تھیں کہ کبھی لڑکی کے شانوں پر تو کبھی لڑکی کی عریاں ٹانگوں پر۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ بوڑھے نے اب تو باقاعدہ اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنی ہتھیلیاں ٹیک کر گویا منظر سے تسلی کے ساتھ لطف اندوز ہونا شروع کر دیا تھا۔

بوڑھے کی ان حرکات سے جہاں لڑکی بے چین, پہلو پر پہلو بدل رہی تھی وہیں لڑکا بھی غصے سے تلملا رہا تھا، بالآخر اس نے پھٹتے ہوئے کہا: بڑے میاں، کچھ تو حیا کرو، شرم آنی چاہئے تمہیں، اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو، اپنا منہ دوسری طرف کرو اور میری بیوی کو سکون سے بیٹھنے دو۔بوڑھے دیہاتی نے لڑکے کی بات تحمل سے سنی اور متانت سے جواب دیا: لڑکے، میں نا تو جوابا تجھے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تو خود کچھ شرم و حیاکر۔ نا ہی تجھے یہ کہوں گا کہ تجھے اپنی بیوی کو ایسا لباس پہناتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تو ایک آزاد انسان ہے، بھلے ننگا گھوم اور ساتھ اپنی بیوی کو بھی گھما۔لیکن میں تجھے ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں، کیا تو نے اپنی بیوی کو ایسا لباس اس لئے نہیں پہنایا کہ ہم اسے دیکھیں۔ آگر تیرا منشا ایسا تھا تو پھر کاہے کا غصہ اور کس بات کی تلملاہٹ؟بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ دیکھ میرے بیٹے، تیری بیوی کا جتنا جسم ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے کہ تو دیکھ، مگر اس کا جتنا جسم کھلا ہوا ہے اس پر تو ہم سب عوام کا حق بنتا ہے کہ ہم دیکھیں۔

اور اگر تجھے میرا اتنا قریب ہو کر تیری بیوی کو دیکھنا برا لگا ہے تو میرا نہیں میری نظر کا قصور ہے جو کمزور ہے اور مجھے دیکھنے کیلئے نزدیک ہونا پڑتا ہے۔بوڑھے کی باتیں نہیں اچھا درس تھا مگر ذرا ہٹ کر، لوگوں نے جان لیا تھا کہ بوڑھا اپنا پیغام اس جوڑے تک پہنچا چکا ہے۔ لڑکی کا چہرہ آگر شرم سے سرخ ہو رہا تھا تو لڑکا منہ چھپائے چلتی گاڑی سے اترنے پر آمادہ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی، اگلے اسٹیشن پر لڑکے نے جب گاڑی سے اترنے کیلئے باہر کی طرف لپکنا چاہا تو بوڑھے نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا؛بیٹے ہمارے دیہات میں درخت پتوں سے ڈھکے رہیں تو ٹھیک، ورنہ آگر کسی درخت سے پتے گر یا جھڑ جائیں تو ہم اسے کلہاڑی سے کاٹ کر تنور میں ڈال دیا کرتے ہیں۔...

comments | | Read More...

This is a thought-provoking picture

This picture was taken in the Harbin Provincial Hospital. A cancer patient carrying a bag full of money asked the doctor to save her life and she has plenty of money to pay him. But the doctor said he cannot do anything as her cancer is in the final stage. She was so angry and frustrated that she threw the money across the hospital's entire corridor. Shouting "what`s the use of having the money" "what is the use of having the money." "Money cannot buy health, money cannot buy time, money cannot buy life." It makes great sense to maintain good health while we have time and money.

comments | | Read More...

ﭼﺎﻧﺪ ﮐﺎ ﺩﻭﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﻧﺎﺍﻭﺭ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ


ﺍﭘﺎﻟﻮ 10 ﺍﻭﺭ 11 ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻧﺎﺳﺎﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞﻤﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻧﺎﺳﺎ ﮐﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺣﺎﻝ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺎﻣﺮﮐﺰ ﺑﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ۔ ﻧﺎﺳﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﮯ ۔ﺍ ﺱ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﮐﯽ ﺑﯿﻠﭧ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﭼﺎﻧﺪ ﺩﻭﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮﺍ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﺎﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﺍﺭﺿﯿﺎﺕ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺯﻏﻠﻮﻝ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﻮﭼﮭﺎ ‏( ﺍِ ﻗْﺘَﺮَ ﺑَﺖِ ﺍﻟﺴَّﺎ ﻋَﺔُ ﻭَ ﺍﻧْﺸَﻖَّ ﺍﻟْﻘَﻤَﺮُ 0 ﻭَ ﺍِﻥْ ﯾَّﺮَ ﻭْ ﺍ ﺍٰ ﯾَﺔً ﯾُّﻌْﺮِ ﺿُﻮْ ﺍ ﻭَ ﯾَﻘُﻮْ ﻟُﻮْ ﺍ ﺳِﺤْﺮُ ﻣُّﺴْﺘَﻤِﺮُّ 0 ﻭَ ﮐَﺬَّ ﺑُﻮْﺍ ﻭَ ﺍﺗَّﺒَﻌُﻮْﺍ ﺍَﮬْﻮَﺍٓ ﺀَ ﮬُﻢْ ﻭَ ﮐُﻞُّ ﺍَﻣْﺮٍ ﻣُّﺴْﺘَﻘِﺮُّ 0 ‏) ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺍٓ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ . ﯾﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﭼﻼ ﺍٓﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺩﻭ ﮨﮯ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﮭﭩﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﮐﺎﻡ ﭨﮭﮩﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﮯ۔ '' ۔ ‏( ﺍﻟﻘﻤﺮ، 3-1 ﮈﺍﮐﭩﺮﺯﻏﻠﻮﻝ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭﮐﻨﮓ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺟﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﺮ ﺍﺭﺿﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮﮨﯿﮟ۔ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭﻣﺼﺮﮐﯽ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﻧﺴﻞ ﺍٓﻑ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﻣﻮﺭ ﮐﯽ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﮐﺎﺭﮈ ﻑ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﺟﺲ ﮐﻮﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﻃﻠﺒﺎ ﺀ ﮐﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯽ ۔ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺩﮦ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﭘﺮ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﻮ ﻣﺴﻠﻢ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮭﮍ ﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺳﯽ ﺍٓﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺮ ﮐﯿﺎ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺩﮨﺎﯾﮏ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺯﻏﻠﻮﻝ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ! ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﺩﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﯾﺎ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﻓﻮﻕ ﺍﻟﻔﻄﺮﺕ ﺷﮯ ﮨﮯ ،ﺟﺲ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ۔ﭼﺎﻧﺪ ﮐﺎ ﺩﻭﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﻧﺎﺍﯾﮏ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻧﺒﻮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻄﻮﺭﺩﻟﯿﻞ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ۔ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﻄﻌﯽ ﻃﻮﺭﭘﺮ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺫﮐﺮ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻮ ﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ ۔ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﮨﻤﺎﺭ ﺍﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﻗﺪﺭﺕ ﺭﮐﮭﺘﺎﮨﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﺠﺮﺕ ﺳﮯ 5 ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﻗﺮﯾﺶ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍٓﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍٓﭖ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﭽﮯ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ۔ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺣﺘٰﯽ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺮﺍ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺩﯾﮑﮭﺎ . ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭨﮑﮍﺍ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺍﻭﺭﺍﯾﮏ ﭨﮑﮍﺍ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺩﯾﮑﮭﻮ ،ﯾﺎﺩﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺍﮦ ﺭﮨﻨﺎ۔ﮐﻔﺎﺭ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﮐﺒﺸﮧ ﯾﻌﻨﯽ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺟﺎﺩﻭ ﮨﮯ ۔ﮐﭽﮫ ﺍﮨﻞ ﺩﺍﻧﺶ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺎﺩﻭ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺻﺮﻑ ﺣﺎﺿﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﭘﺮ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ۔ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻃﮯ ﮐﯿﺎﮐﮧ ﺍﺏ ﺟﻮﻟﻮﮒ ﺳﻔﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍٓﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﮭﺎ۔ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍٓﺋﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﻓﻼﮞ ﺷﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﮨﮯ ۔ﮐﻔﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻊ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻃﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺍٓ ﮐﺮ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﯾﺎ ،ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﺍٓﯾﺎ ،ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍٓﯾﺎ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺩﯼ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﮨﮯ ۔ﺍ ﺱ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﭘﺮ ﺍَﮌﯼ ﺭﮨﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﻣﺴﻠﻢ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﻣﯿﺮ ﺍﻧﺎﻡ ﺩﺍﻭٔﺩ ﻣﻮﺳﯽٰ ﭘﯿﭧ ﮐﺎﮎ ﮨﮯ۔ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺻﺪﺭ ﮨﻮﮞ۔ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﺳﺮ ! ﺍﮔﺮ ﺍٓ ﭖ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎﮨﻮﮞ ۔ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ ! ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ،ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺮﺍٓﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ۔ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﺍٓﯾﺎ ۔ﮔﮭﺮ ﺍٓﮐﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﺟﺲ ﺻﻔﺤﮯ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﻭﮦ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺍٓﯾﺎﺕ ﺗﮭﯿﮟ ۔ﺍﻥ ﺍٓﯾﺎﺕ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻨﻄﻖ ﮨﮯ ؟ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍٓﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﮍ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ﻭﮦ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ؟ﺍﻥ ﺍٓﯾﺎﺕ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍٓﻣﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺎﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺑﺮﺍﺑﺮﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﻮﮞ ۔ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣَﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﮍﭖ ﮐﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺧﻮﺏ ﻋﻠﻢ ﺗﮭﺎ ۔ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﯾﺴﺎﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ﭨﯽ ﻭﯼ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﮨﻤﯽ ﻣﺬﺍﮐﺮﮮ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﭼﻞ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ۔ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﯿﻦ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻓﻠﮑﯿﺎﺕ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﭨﯽ ﻭﯼ ﺷﻮ ﮐﺎ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻟﺰﺍﻣﺎﺕ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﮭﻮﮎ ،ﺍﻓﻼﺱ ،ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭﺟﮩﺎﻟﺖ ﻧﮯ ﮈﮬﯿﺮﮮ ﮈﮬﺎﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺍٓﭖ ﻟﻮﮒ ﺑﮯ ﻣﻘﺼﺪ ﺧﻼ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺭﮮ ﮐﺮ ﺗﮯ ﭘﮭﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺟﺘﻨﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ﺑﺤﺚ ﻣﯿﮟ ﺣﺼﮧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﻼﺋﯽ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﺍﺩﻭﯾﺎﺕ ،ﺻﻨﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺯﺭﺍﻋﺖ ﮐﻮ ﻭﺳﯿﻊ ﭘﯿﻤﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﺮﻗﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎ ﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺳﺮﻣﺎﺋﮯ ﮐﻮ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺟﺪﯾﺪ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﻍ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺍٓﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﺮﺏ ﮈﺍﻟﺮ ﺧﺮﭺ ﺍٓﺗﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﻧﮯ ﭼﯿﺨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎﻓﻀﻮﻝ ﭘﻦ ﮨﮯ ؟ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﮭﻨﮉﮮ ﮐﻮ ﭼﺎﻧﺪ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﺮﺏ ﮈﺍﻟﺮ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮩﺎ ﮞ ﮐﯽ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪﯼ ﮨﮯ ؟ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺑﺎ ً ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ! ﮨﻢ ﭼﺎﻧﺪ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﮔﺎﮌ ﺳﮑﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﻨﺎﺗﮭﺎ ۔ﺩﺭﺍﺻﻞ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭼﺎ ﻧﺪ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻭﮔﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ﻣﮕﺮ ﺗﺎﺣﺎﻝ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﮔﮯ۔ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍٓﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﮔﺌﮯ۔ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯽ ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﺷﺪﮦ ﭼﭩﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﭘﭩﯽ ﻭﮨﺎ ﮞ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻄﺢ ﺳﮯ ﻣﺮﮐﺰ ﺗﮏ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﮐﺰ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﻄﺢ ﺗﮏ، ﮐﻮ ﮐﺎﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﺍﺭﺿﯿﺎﺗﯽ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﺮﮔﺰ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍٓﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﮍﺑﮭﯽ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﻣﺴﻠﻢ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﺍﭼﮭﻞ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎ ﺭﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﮈﺍﻟﺮ ﻟﮕﺎﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ ، ﻭﮦ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻇﮩﻮﺭ ﺍٓﺝ ﺳﮯ 14 ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﻮﺍ۔ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﭽﺎ ﮨﻮﻧﺎﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﭘﮍﮬﺎ۔ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺭﺓ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﯽ۔
ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﺍﻧﮉﯾﺎﮐﮯ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﻣﺎﻻﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎ ﺕ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺎﻻﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭼﮑﺮﺍﻭﺗﯽ ﻓﺎﺭﻣﺲ ﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎﻣﻨﻈﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﮭﺎ ۔ﺍ ﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎﮨﻮ ﺍﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﺍ ۔ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﺭﻧﺪﮮ ﺩﻭﮌﺍﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺧﺒﺮ ﻣﻠﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﻣﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺍٓﻣﺪ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﯿﻦ ﮔﻮﺋﯽ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺎﺋﻢ ﻣﻘﺎﻡ ﺑﻨﺎ ﮐﺮﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺍ۔ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺒﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﺮﻑ ﺑﺎﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﺍ۔ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﺐ ﻭ ﮦ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﮔﺎﻣﺰﻥ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﯾﻤﻦ ﮐﮯ ﻇﻔﺮ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ ۔ﯾﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻘﺒﺮ ﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩﮨﮯ۔ﺟﺲ ﮐﻮ '' ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ ﺭﺍﺟﮧ ﮐﺎ ﻣﻘﺒﺮﮦ '' ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺳﯽ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﺭﺭﺍﺟﮧ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﻣﺎﻻﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﺋﮯ ۔ﺑﻌﺪﺍﺯﺍﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ ۔ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺑﻌﺜﺖ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﭼﯿﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﻟﻨﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ '' ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺍٓﻓﺲ ﻻﺋﺒﯿﺮﯾﺮﯼ '' ﮐﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻣﺨﻄﻮﻃﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎﮨﮯ۔ﺟﺲ ﮐﺎﺣﻮﺍﻟﮧ ﻧﻤﺒﺮ ﮨﮯ۔ ‏( Arabic ,2807,152-173 ‏) ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﺤﻤﺪﺣﻤﯿﺪﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ '' ﻣﺤﻤﺪﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ '' ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎﺗﮭﺎ۔ ﻧﺎﺳﺎ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮﭼﺎﻧﺪ ﭘﺮ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺌﯽ ﺩﺭﺍﮌﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺍﮌ ﮐﯽ ﮨﮯ ۔ ﮨﻢ ﻭﺛﻮﻕ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺩﺭﺍﮌ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺀ ﭘﺮ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍٓ ﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﺑﺤﺮﺣﺎﻝ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺟﺲ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺍٓﺝ ﺳﮯ 14 ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺮﺣﻖ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﻧﺎﺻﺮ ﻑ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ،ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎ ﺀ ﮐﯽ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﻻﺭﯾﺐ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﮐﻤﻞ ﻭ ﮐﺎﻣﻞ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻤﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﻮﺍﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔ ﺍٓﻣﯿﻦ۔

comments | | Read More...

پانامہ اور پاکستانی عوام۔

انکی پانامہ میں آفشور کمپنیاں اس لیے ہیں کیونکہ آپ گونگے جاہل ہیں۔ (معذرت لیکن کچھ بے غیرتوں کو غیرت یاد دلانی ہے۔ شاید کچھ غیرت کی رمق باقی ہو)

وسائل کی  غیر منصفانہ تقسیم  نے   دنیا میں غربت پیدا کر رکھی ہے  ۔۔۔
آپ  کے لئے   شائد   یہ بات  حیران کن ہو کہ   دنیا   کے   امیر ترین لوگوں کی  لسٹ میں  پہلے   ہزار  افراد میں کوئی بھی  پروفیشنل   نہیں ۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔ ان کی   دولت   میں اضافہ اور لوٹ مار کرنے میں  ہزاروں پروفیشنل  ملازمین   دن رات   مزدوری کر رہے ہیں  ۔۔۔۔

یہ  سب   لوٹ مار    پرافٹ  کے نام پر  دن رات جاری ہے  ۔۔۔
افسوس   یہ ہے کہ  سرمایا دار   تو   پرافٹ  کے نام پر   غریب  کا خون نچوڑ رہا ہے  ۔۔۔   یہ   منڈی کے نظام میں  جائز قرار دیا گیا ہے مگر  جب   غریب   تنگ آکر  سرمایا دار   کو   لوٹے   تو اس کو ڈاکہ   اور   بغاوت کہا جاتا ہے ۔۔ 
ورنہ خود سوچیں ۔۔۔
پانچ پرسنٹ    سے بھی کم لوگ   کس طرح    پچانوے  فیصد غریب اور مڈل کلاس پر   عرصے سے   حاکم  چلے آ رہے ہیں  ۔۔۔۔   
پاکستان کے پہلے دس امیر لوگوں میں نواز شریف اور زرداری  دونوں شامل ہیں اور ان کی  سیاست کا مقصد  ہی  پیسا بنانا ہے  ۔۔۔   
پی پی   جیسی   انقلابی  پارٹی   غریب   مزدور   اور  ہاری   کی  بات کرتے کرتے خود   سرمایا داروں کی  جھولی میں جا گری ۔۔۔۔
افسوس   ۔۔    غریب    بریانی کی ایک پلیٹ  اور   قیمے کے نان  پر  بک جاتا ہے  ۔۔۔
سرمایا دار   ایک دن میں  ڈالر کی   قیمت  بڑھا کر  مزید اربوں  بنا لیتا ہے اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں  ۔۔۔  
جن لیڈروں کا سب مال منتر     باہر کے ملکوں میں ہو   ۔۔۔   بچے   باہر رہتے ہوں ۔۔۔
خود   کئی سو کنال کے   گھروں میں  رہتے ہوں    اور   غریب   کی   زندگی بدلنے  کی  تقریریں    کریں ۔۔۔
وہ صرف   اپنا سودا   بیچ رہے ہوتے ہیں  ۔۔۔
غربت ختم    کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ غریبوں پر غریب ہی حکومت کریں ۔۔۔
غریب کی حکومت اس نظام سے کبھی بھی  نہیں لائی جا سکتی ۔۔۔
یہ نظام گرانا  ہو گا ۔۔۔
بہتر کل    کے لئے    آج    لڑنا ہو گا  
سرمایا داروں   کے   وظیفہ خور   اور   مفاد پرست    مڈل کلاسے    اس   لڑائی میں کبھی    حصہ   نہیں   لیا کرتے ۔۔۔
یہ   خون    کی   جنگ   ہے   ۔   غریب کی اپنی   جنگ  ہے   ۔۔۔
اس کو   ایک دن   غریب خود ہی   لڑے گا ۔۔۔
اس  دن  کا   انتظار ہے ۔۔۔

سرمایا کا نظام     ۔۔۔   جبر کا نظام  

دھندہ ہے پر گندا ہے یہ ۔۔۔  
ان کی پانامہ میں آفشور کمپنیاں اس لئے ہیں کیونکہ  آپ سوچتے نہیں    اور    اکھٹے  نہیں ۔۔۔

comments | | Read More...

پاکستان میں جعلی دودھ

بیرسٹر ظفر اللہ نے جون 2016ءمیں سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں دودھ سے متعلق پٹیشن دائر کی' بیرسٹر صاحب نے اس پٹیشن میں انکشاف کیا "پاکستان میں جعلی دودھ بک رہا ہے اور لاکھوں لوگ اب تک اس دودھ کی وجہ سے مہلک امراض کا شکار ہو چکے ہیں"چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 28 جولائی 2016ءکو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ بنا دیا' بینچ نے سماعت شروع کی اور پنجاب فوڈ اتھارٹی سے جواب طلب کر لیا' اتھارٹی نے دودھ کے نمونے جمع کرنا شروع کر دیئے' دودھ کی پڑتال ہوئی اور نتائج نے سپریم کورٹ سمیت پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا'قوم سکتے میں چلی گئی' حقائق کیا ہیں؟ آپ بھی جانیے 'کانوں کو ہاتھ لگائیے اور دودھ پینا چھوڑ دیجئے۔ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں' یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں' پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب' مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی

سب سے بڑی قوم بھی ہیں' کیسے؟ آپ ملاحظہ کیجئے پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں' پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے' یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے' ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے" دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے' یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے' یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے' تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے' یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے' ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے' یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے' پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں' مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے' آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کےلئے انتہائی خطرناک ہیں' کیسے؟ آپ مزید حقائق ملاحظہ کیجئے' تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے' ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کےلئے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے' مثلاً آپ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجئے' لاہور شہر کےلئے اوکاڑہ' چشتیاں' قصور' جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جبکہ راولپنڈی کےلئے جہلم اور سرائے عالمگیر سے

دودھ لایا جاتا ہے' دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں' چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے'

بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے' دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے' یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کےلئے بھینسوں کو ہارمون کے انجیکشن لگاتا ہے' یہ انجیکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل سٹورز سے عام مل جاتے ہیں' یہ سستے بھی ہوتے ہیں' یہ انجیکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے' یہ فوراً دودھ دے دیتی ہے' یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہے'یہ ہارمون بچوں کی صحت کےلئے نقصان دہ ہیں' گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں' یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ

دیتے ہیں' دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے' گوالے پتلے پن کو چھپانے کےلئے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاﺅڈر (سرف) ڈال دیتے ہیں'ڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے' یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کےلئے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاﺅڈر ڈالتے ہیں' بلیچنگ پاﺅڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے' یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہے'بیوپاری اس میں یوریا کھاد' ہائیڈروجن پر آکسائیڈ' بورک پاﺅڈر' پنسلین' ایلومینیم فاسفیٹ اور

فارملین ڈال دیتے ہیں' یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں' یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے

ہیں' بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں' چائے خانوں' ریستورانوں' دودھ دہی کی دکانوں' سٹورز' مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں' یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے' یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کےلئے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے'یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں' ہم اب ٹیٹرا پیک' بوتل ' لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں' یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں' کیسے؟ آپ صورتحال ملاحظہ کیجئے' ٹیٹرا پیک کےلئے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے' یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے' یہ

طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے' کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کےلئے اس میں خشک دودھ' پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں' یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے' دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے'یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل' پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں' یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے

لہٰذ دودھ فروش گوالے' بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیں'پیچھے رہ گیا خشک دودھ' یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ' دودھ بھی نہیں ہوتا' یہ پاﺅڈر مِلک اور کیمیکلز کا

مرکب ہوتاہے' کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ' پام آئل' چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں' یہ دودھ "ٹی وائیٹنر" کہلاتا ہے' یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے' آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں' یہ بیکری کی مصنوعات' مٹھائیوں' ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہےں' یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں' یہ 20 کیمیکل بیکریوں' مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں' ان میں مصنوعی رنگ'

مصنوعی خوشبو' پلاسٹک' دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے' آپ نے کبھی غور کیا' آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتا'آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیں' کیوں؟ کیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ' ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے' ہم دودھ' بیکری اور خوراک

کے نام پر زہر کھا رہے ہیں' یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے' ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں' یہ بیرسٹرظفر اللہ کی مہربانی ہے' یہ آگے بڑھے اور انہوں نے ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں' یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ آپ یقین کیجئے ہمارے ملک میں بکریاں' مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیں'یہ خالص چارہ کھاتے ہیں' یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں' یہ ہم سے زیادہ فعال ہیںجبکہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں' میری آپ سے درخواست ہے آپ دودھ دیکھ بھال کر خریدا کریں'آپ دودھ کا

معائنہ بھی ضرور کروائیں' چائے میں خشک دودھ کا استعمال بند کر دیں' آپ آئس کریم 'بیکری آئٹم' مٹھائیوں اور چاکلیٹ کا استعمال بھی کم کر دیں' آپ گروپس بنائیں' یہ گروپس اپنی بھینسوں یا گائےوں کا بندوبست کریں اور دودھ کا انتظام کر لیں'یہ آپ کا اپنے اور اپنے خاندان پر عظیم احسان ہوگا۔میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر جسٹس ثاقب نثار اس ملک کے عوام کو خالص دودھ فراہم کر دیتے ہیں' یہ اگر یہ آوا ٹھیک کر دیتے ہیں تو یہ دس حکومتوں اور دس عظیم قائدین سے بڑے قائد ثابت ہوں گے' قوم کھڑے ہو کر انہیں سیلوٹ کرے گی اور اگر یہ بھی ناکام ہو گئے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے' پھرنریندر مودی کو پاکستانیوں کو مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی' پاکستانی دودھ پی پی کر مرتے چلے جائیں گے.

comments | | Read More...

Jag Muslim jag



comments | | Read More...

.

@farooqelec

Blogger news

Blogger templates

Flag Counter

TV LIVE

LIVE TV
 
Company Info | Contact Us | Privacy policy | Term of use | Widget | Advertise with Us | Site map
Copyright © 2014. ELECTRIC PLUS . All Rights Reserved.
Design Template by electric plus | Support by creating website | Powered by Blogger